Salaam Aqeedat مرے کلام پہ حمد و ثناء کا سایہ ہے مرے کریم کے لطف و عطاء کا سایہ ہے میں حمد و منقبت و نعت لکھ رہا ہوں، میرے تخیلات شاه ھدی کا سایہ ہے لکھا ہے حسن جہاں، اُس کو پڑھ چکا ہوں حسن کیں پہ خامس آل عبا کا سایہ ہے خدا نے ہم کو نوازا حواس خمسہ سے یہ ہم پہ پنجتن با صفا کا سایہ ہے کوئی مریض ہو لے جا رضا کے روضے پر وہیں طبیب ہے، دار الشفاء کا سایہ ہے سفر ہو یا ہو حضر مجھ کو کوئی خوف نہیں کہ مجھ پہ شاہ نجف مرتضی کا سایہ ہے علی امام مرا، اور میں غلام علی علی کی شان پر تو لافتی کا سایہ ہے علی کا نام تو حرز بدن ہے اپنے لیے علی کے اسم پہ رب علی کا سایہ ہے ن لطف احمد مرسل بفضل آل رسول میں خوش نصیب ہوں مجھ پر ہما کا سایہ ہے وہی ہے نفس پیمبر وہی ہے زوج بتول علی کی ذات پر ہی ہل اتی کا سایہ ہے ریاض خلد کے سردار شبر و شبیر حدیث پاک ہے، خیر الوریٰ کا سایہ ہے سفیر کرب و بلا، زینب حزیں پہ سلام وہ جس کے عزم پہ خیر النسا " کا سایہ ہے تری دعا کی اجابت میں دیر کیا ہو گی علی کا نام لے! حاجت روا کا سایہ ہے نجات پائے گا ہر دکھ سے تو نہ رہ ناشاد کہ تجھ پہ رحمت ارض و سماء کا سایہ ہے mar
New Manqabat رہائی ملی کلبہ شام سے حرم چھٹ گیا رنج و آلام سے بشیر ابن نعمان کو حکم تھا سجا محملوں کو بھی زر فام سے نظر آیا زینب کو اہتمام کہا ہم نہیں شاد اس کام سے مصیبت زده قافلے کے لیے بدل دے یہ پردے سیہ نام سے بڑھا قافلہ کربلا کی طرف رنج و محن فکر و آلام سے نبی زادیاں بین کرتی ہویں ہویں وارد کربلا شام سے مزاروں پر گر کر رہے تھے کبھی قیامت کا منظر تھا کہرام سے عجب شور محشر تھا میدان میں غریبوں، یتیموں کے ہمگام سے یہ کہتے ہوئے کبھی رو رہے تھے سکینہ نہیں آ سکی شام سے ستمگر نے بے شیر کی پیاس کو بجھایا مگر تیر کے جام ہے بنا تھا ستمگر پلید یزید نه ڈرتا تھا وہ اپنے انجام سے وطن میں پہنچ کر نبی زادیاں لرزتی تھیں زندان کے نام سے جگر تھام ناشاد اب بس کرو دعا مانگ تو رب سے آرام سے rihayi mili کلبہ shaam se haram chaatt gaya ranj o alaam se Basheer Ibn Noman ko hukum tha saja محملوں ko bhi zar faam se nazar aaya zainab ko ihtimaam kaha hum nahi shaad is kaam se museebat زده qaafley ke liye badal day yeh parday siya naam se barha qaafla karbalaa ki taraf ranj o محن fikar o alaam se nabi زاد